ایمان افروز واقعہ


علامہ احسان الہی ظہیر کی کار
 جب چلتی نہر میں گری


1973ء میں بورے والا سے میں ایک جلسہ عام کو خطاب کرنے کے بعد خانیوال کی طرف عازمِ سفر ہوا اس وقت میرے ہمراہ دو ساتھی بھی تھے خانیوال کے وکلاء نے مجھے بار روم سے خطاب کرنے کی دعوت دے رکھی تھی اس لئے ایک وکیل بھی میرے ساتھ تھا لاہور سے بورے والا تک سفر کی تھکان، اس کے بعد بورے والا میں جلسہ عام سے خطاب، گرمی کی شدت سے سارا جسم درد کر رہا تھا چنانچہ ٹیکسی کی پچھلی نشست پر بیٹھتے ہی سو گیا۔ یہ ٹیکسی بورے والا میں جلسہ عام کروانے والوں نے کرائے پر حاصل کی تھی۔

رات کے ساڑھے بارہ بج رہے تھے۔ مجھ پر آہستہ آہستہ نیند غلبہ پا رہی تھی غنودگی کے عالم میں، میں نے اپنا بریف کیس ٹیکسی کی پچھلی نشست کے اوپر بنے ہوئے بورڈ پر رکھ لیا غنودگی کے عالم میں میں نے دروازے کو لاک کرنا چاہا لیکن کسی غیبی طاقت نے میرے ہاتھ روک لئے یکایک یہ خیال ذہن میں سرایت کر گیا کہ اگر ٹیکسی کو کوئی حادثہ پیش آ گیا تو ہم باہر کیسے نکلیں گے یہ خیال آتے ہی میں نے دروازہ لاک نہ کیا اور اگلے ہی لمحے نیند کی آغوش میں چلا گیا۔ یکایک حافظ طارق کی چیخ نے مجھے دہلا کر رکھ دیا میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا ہماری ٹیکسی بورے والا اور خانیوال کے درمیان واقع میلسی لنک کینال کے پختہ اونچے کنارے سے نیچے گر چکی تھی شاید بیچارا تھکاوٹ کی وجہ سے سو چکا تھا. اور ٹیکسی پل پر سے گزرنے کے بجائے سیدھی نہر کے پرشور پانیوں میں جا گری تھی میں کبھی بھول نہیں سکتا کہ جب ٹیکسی میں روانہ ہوتے وقت میں نے دروازہ بند کرنا چاہا تو کونسی قوت نے مجھے ایسا کرنے سے روک دیا تھا اور لاشعوری طور پر میں نے دروازہ کھول دیا تھا بجلی کی طرح میرے ذہن میں دروازہ کھولنے کا خیال کوندا تیزی سے میری انگلیوں نے ٹیکسی کے لاک کو کھینچا اور میں دروازہ کھول کر باہر آ گیا میرے دو ساتھی بھی میرے ساتھ پھرتی کے ساتھ ٹیکسی سے باہر نکل آئے اس سے پہلے کے پانی گاڑی میں داخل ہو ہم اس سے باہر آ چکے تھے اب پانی کے بے رحم تھپڑے تھے اور ہم رات کی تاریکی تھی جنگل کا سناٹا موت کی آغوش میں جاتا دیکھ کر میں پوری طرح بیدار ہو چکا تھا۔ اپنی بے بسی اور بے کسی کا احساس رگ و پے میں دوڑ گیا پانی کی تند و تیز اور بپھری ہوئی موجوں کے سامنے ہم مجبور و لاچار تھے۔

کسی غیبی طاقت نے مجھے ایک طرف دھکیلنا شروع کیا پل کے نیچے بہتے ہوئے پانی کے ساتھ ساتھ میں بھی کسی گیند کی طرح بہتا ہوا جا رہا ہوں میں نے پل کی دیوار پکڑنے کی کوشش کی مگر پانی کے تیز بہاؤ کے سامنے بے بس تھا پانی کے ساتھ بہتا ہوا میں پل سے کافی آگے نکل گیا میں نے کوشش کی کہ کنارے کو پکڑ لوں مگر پختہ دیوار پر ہاتھ جم نہ سکا کنارے پر کائی جمی ہوئی تھی جس کی وجہ سے پھسلن بھی کافی ہو چکی تھی پل کے کنارے کو پکڑنے میں دو تین مرتبہ ناکامی کے بعد مایوسی نے گھیر لیا ہر دفعہ اچھلنے کی کوشش میں میرا پاؤں پھسلتا اور میں پانی کے بہاؤ کے ساتھ دور تک چلا جاتا تھا۔ یک لخت ٹھنڈے ٹھنڈے پانی میں دو گرم گرم قطروں نے گرماہٹ پیدا کی۔ میری آنکھوں سے آنسوں بہنے لگے ہاتھ جو دیوار سے چپکے ہوئے تھے خودبخود سیدھے ہونے لگے بے اختیار ذہن کے پردے پر اپنی بڑی بیٹی کی تصویر نظر آ گئی اور لبوں سے ایک آہ نکل گئی۔

میں سوچ رہا تھا۔۔۔

"#اے_اللہ! میری بیٹی کو معلوم بھی نہ ہوگا کہ اس کے ابو پر کیا بیت گئی۔" آئندہ کبھی مجھے اس کا چہرہ دیکھنا نصیب نہ ہوگا اور وہ دروازے پر کھڑی حسب معمول میری راہ تکتی رہے گی، تکتی رہے گی، کہ ابو ابھی تک پلٹ کر نہیں آئے۔

اگلے ہی لمحے نجانے کہاں سے مجھ میں اتنی قوت آ گئی کہ میں کنارے پر کھڑا تھا جب کچھ اوسان بحال ہوئے تو اپنے ساتھیوں کا خیال آیا ننگے پاؤں، ننگے سر اور بھیگے کپڑوں میں شرابور میں نے کنارے کے ساتھ ساتھ پانی کے بہاؤ کی طرح سرپٹ بھاگنا شروع کر دیا۔

ذہن میں ایک ہی خیال آیا ہوا تھا۔۔۔ حافظ طارق جب اس کے ماں باپ مجھ سے حافظ طارق کے بارے میں سوال کریں گے تو میں کیا جواب دوں گا ذہن ماؤف ہو چکا تھا تفکرات کے سائے بڑھتے جا رہے تھے اور رات کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں میلسی کی اس نہر پر ایک ہی آواز گونج رہی تھی۔

حافظ طارق۔۔۔حافظ طارق، حافظ طارق مگر حافظ طارق کا کہیں دور دور تک نام و نشان نہ تھا اچانک کسی گوشے سے ایک نحیف و نزار آواز سنائی دی۔

"مجھے بچاؤ۔۔۔ مجھے بچاؤ۔۔۔ مجھے بچاؤ" حافظ طارق کی چیخوں کی فریاد میرے کان میں پڑ رہی تھی میں آواز کی سمت میں لپکا اور بہت دوڑ حافظ طارق کنارے پر سسک رہا تھا جب بھی وہ اوپر آنے کی کوشش کرتا اس کا پاؤں پھسل جاتا اور چہرے پر کرب و فکر کی لہریں گہری ہو جاتیں نجانے مجھ میں اتنی قوت اور میرے ہاتھوں میں اتنی مضبوطی کہاں سے آگئی کہ اسے پکڑا اور ایک ہی جھٹکے میں حافظ طارق باہر آچکے تھے کچھ ہی فاصلے پر خانیوال کے ساتھی وکیل کا سراغ مل گیا اور پھر تینوں نہر کے کنارے اس ویرانے میں ذات برحق کے سامنے سجدہ ریز ہو گئے جس نے بپھرے ہوئے پانی کی بے رحم موجوں سے ہمیں محفوظ رکھا جو ہمارے چوتھے ساتھی ٹیکسی ڈرائیور کو نگل چکیں تھیں رات کے اس سناٹے میں جب ہم زخمی قدموں کے ساتھ ننگے پاؤں وہاں کے تھانے پہنچے تو سپاہی رات کے آخری پہر میں تین بھیگے ہوئے کپڑوں اور خوفزدہ چہرے والوں کو دیکھ کر ڈر گئے اور دروازہ اس وقت تک نہ کھولا جب تک پو نہ پھوٹی وہ رات مجھے کبھی بھول نہیں سکے گی جب میں نے موت کو بھی بڑے قریب سے دیکھا اور اس کا مشاہدہ بھی کیا۔

تبصرے

  1. اللہ اکبر کبیرا-
    اللہ رب العزت علامہ صاحب رحمہ اللہ کے جنت الفردوس میں درجات بلند فرمائے -آمین

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

رمضان المبارک کورس

عورت صرف دو جذبوں کی طلبگار ہوتی ہے ❶ محبت اور ❷ عزت

سوچنے کی اصل بات!