لین دین کے معاملات میں ہدایات

 لین دین کے معاملات میں ہدایات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابن جریج فرماتے ہیں
جو ادھار دے وہ لکھ لے اور جو بیچے وہ گواہ کر لے ، ابو سلیمان مرعشی جنہوں نے حضرت کعب کی صحبت بہت اٹھائی تھی انہوں نے ایک دن اپنے پاس والوں سے کہا اس مظلوم کو بھی جانتے ہو جو اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے اور اس کی دعا قبول نہیں ہوتی لوگوں نے کہا یہ کس طرح؟ فرمایا یہ وہ شخص ہے جو ایک مدت کیلئے ادھار دیتا ہے اور نہ گواہ رکھتا ہے نہ لکھت پڑھت کرتا ہے پھر مدت گزرنے پر تقاضا کرتا ہے اور دوسرا شخص انکار کر جاتا ہے ، اب یہ اللہ سے دعا کرتا ہے لیکن پروردگار قبول نہیں کرتا اس لئے کہ اس نے کام اس کے فرمان کیخلاف کیا ہے اور اپنے رب کا نافرمان ہوا ہے ، حضرت ابو سعید شعبی ربیع بن انس حسن ابن جریج ابن زید وغیرہ کا قول ہے کہ پہلے تو یہ واجب تھا پھر وجوب منسوخ ہوگیا اور فرمایا گیا کہ اگر ایک دوسرے پر اطمینان ہو تو جسے امانت دی گئی ہے اسے چاہئے کہ ادا کردے ، اور اس کی دلیل یہ حدیث ہے ، گو یہ واقعہ اگلی امت کا ہے لیکن تاہم ان کی شریعت ہماری شریعت ہے ۔ جب تک ہماری شریعت پر اسے انکار نہ ہو اس واقعہ میں جسے اب ہم بیان کرتے ہیں لکھت پڑھت کے نہ ہونے اور گواہ مقرر نہ کئے جانے پر شارع علیہ السلام نے انکار نہیں کیا ، دیکھئے مسند میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بنی اسرائیل کے ایک شخص نے دوسرے شخص سے ایک ہزار دینار ادھار مانگے ، اس نے کہا گواہ لاؤ ، جواب دیا کہ اللہ کی گواہی کافی ہے ، کہا ضمانت لاؤ ، جواب دیا اللہ کی ضمانت کافی ہے ، کہا تو نے سچ کہا ، ادائیگی کی معیاد مقرر ہو گئی اور اس نے اسے ایک ہزار دینار گن دئیے ، اس نے تری کا سفر کیا اور اپنے کام سے فارغ ہوا ، جب معیاد پوری ہونے کو آئی تو یہ سمندر کے قریب آیا کہ کوئی جہاز کشتی ملے تو اس میں بیٹھ جاؤں اور رقم ادا کر آؤں ، لیکن کوئی جہاز نہ ملا ، جب دیکھا کہ وقت پر نہیں پہنچ سکتا تو اس نے ایک لکڑی لی ، اسے بیچ سے کھوکھلی کر لی اور اس میں ایک ہزار دینار رکھ دئیے اور ایک پرچہ بھی رکھ دیا ، پھر منہ کو بند کر دیا اور اللہ سے دعا کی کہ پروردگار تجھے خوب علم ہے کہ میں نے فلاں شخص سے ایک ہزار دینار قرض لئے اس نے مجھ سے ضمانت طلب کی ، میں نے تجھے ضامن کیا اور وہ اس پر خوش ہو گیا ، گواہ مانگا ، میں نے گواہ بھی تجھی کو رکھا ، وہ اس پر بھی خوش ہو گیا ، اب جبکہ اپنا قرض ادا کر آؤں لیکن کوئی کشتی نہیں ملی ، اب میں اس رقم کو تجھے سونپتا ہوں اور سمندر میں ڈال دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ یہ رقم اسے پہنچا دے ، پھر اس لکڑی کو سمندر میں ڈال دیا اور خود چلا گیا لکین پھر بھی کشتی کی تلاش میں رہا کہ مل جائے تو جاؤں ، یہاں تو یہ ہوا ، وہاں جس شخص نے اسے قرض دیا تھا ، جب اس نے دیکھا کہ وقت پورا ہوا اور آج اسے آ جانا چاہئے تھا ، تو وہ بھی دریا کنارے آن کھڑا ہوا کہ وہ آئے گا اور میری رقم مجھے دے دے گا یا کسی کے ہاتھ بھجوائے گا ، مگر جب شام ہونے کو آئی اور کوئی کشتی اس کی طرف سے نہیں آئی تو یہ واپس لوٹا ، کنارے پر ایک لکڑی دیکھی تو یہ سمجھ کر کہ خالی ہاتھ تو جا ہی رہا ہوں ، اس لکڑی کو بھی لے چلوں ، پھاڑ کر سکھا لوں گا جلانے کے کام آئے گی ، گھر پہنچ کر جب اسے چیرتا ہے تو کھنا کھن بجتی ہوئی اشرفیاں نکلتی ہیں ، گنتا ہے تو پوری ایک ہزار ہیں ، وہیں پرچہ پر نظر پڑتی ہے ، اسے بھی اٹھا کر پڑھ لیتا ہے ، پھر ایک دن وہی شخص آتا ہے اور ایک ہزار دینار پیش کرکے کہتا ہے یہ لیجئے آپ کی رقم ، معاف کیجئے گا میں نے ہر چند کوشش کی کہ وعدہ خلافی نہ ہو لیکن کشتی کے نہ ملنے کی وجہ سے مجبور ہو گیا اور دیر لگ گئی ، آج کشتی ملی ، آپ کی رقم لے کر حاضر ہوا ، اس نے پوچھا کیا میری رقم آپ نے بھجوائی بھی ہے؟ اس نے کہا میں کہ چکا ہوں کہ مجھے کشتی نہ ملی تھی ، اس نے کہا آپ اپنی رقم لے کر خوش ہو کر چلے جاؤ ، آپ نے جو رقم لکڑی میں ڈال کر اسے توکل علی اللہ ڈالی تھی ، اسے اللہ نے مجھ تک پہنچا دیا اور میں نے اپنی رقم پوری وصول پالی ۔ اس حدیث کی سند بالکل صحیح ہے ، صحیح بخاری شریف میں سات جگہ یہ حدیث آئی ہے ۔
مسند احمد میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اعرابی سے ایک گھوڑا خریدا اور اعرابی آپ کے پیچھے پیچھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دولت خانہ کی طرف رقم لینے کیلئے چلا ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو ذرا جلد نکل آئے اور وہ آہستہ آہستہ آ رہا تھا ، لوگوں کو یہ معلوم نہ تھا کہ یہ گھوڑا بک گیا ہے ، انہوں نے قیمت لگانی شروع کی یہاں تک کہ جتنے داموں اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ بیچا تھا اس سے زیادہ دام لگ گئے ، اعرابی کی نیت پلٹی اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آواز دے کر کہا حضرت یا تو گھوڑا اسی وقت نقد دے کر لے لو یا میں اور کے ہاتھ بیچ دیتا ہوں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ سُن کر رکے اور فرمانے لگے تو تو اسے میرے ہاتھ بیچ چکا ہے پھر یہ کیا کہہ رہا ہے؟ اس نے کہا اللہ کی قسم میں نے تو نہیں بیچا ، حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

غلط کہتا ہے ، میرے تیرے درمیان معاملہ طے ہو چکا ہے ، اب لوگ ادھر اُدھر سے بیچ میں بولنے لگے ، اس گنوار نے کہا اچھا تو گواہ لائیے کہ میں نے آپ کے ہاتھ بیچ دیا ، مسلمانوں نے ہر چند کہا کہ بدبخت آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو اللہ کے پیغمبر ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے تو حق ہی نکلتا ہے ، لیکن وہ یہی کہے چلا جائے کہ لاؤ گواہ پیش کرو ، اتنے میں حضرت خزیمہ آگئے اور اعرابی کے اس قول کو سن کر فرمانے لگے میں گواہی دیتا ہوں کہ تو نے بیچ دیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ تو فروخت کر چکا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو کیسے شہادت دے رہا ہے ، حضرت خزیمہ نے فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق اور سچائی کی بنیاد پر یہ شہادت دی ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج سے حضرت خزیمہ کی گواہی دو گواہوں کے برابر ہے ۔ پس اس حدیث سے خرید و فروخت پر گواہی دو گواہوں کی ضروری نہ رہی ، لیکن احتیاط اسی میں ہے کہ تجارت پر بھی دو گواہ ہوں ، کیونکہ  ابن مردویہ اور حاکم میں ہے کہ تین شخص ہیں جو اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں لیکن قبول نہیں کی جاتی ، ایک تو وہ کہ جس کے گھر بداخلاق عورت ہو اور وہ اسے طلاق نہ دے ، دوسرا وہ شخص جو کسی یتیم کا مال اس کی بلوغت کے پہلے اسے سونپ دے ، تیسرا وہ شخص جو کسی کو مال قرض دے اور گواہ نہ رکھے ، امام حاکم اسے شرط و بخاری و مسلم پر صحیح بتلاتے ہیں ، بخاری مسلم اس لئے نہیں لائے کہ شعبہ کے شاگرد اس روایت کو حضرت ابو موسیٰ اشعری پر موقوف بتاتے ہیں ۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

رمضان المبارک کورس

عورت صرف دو جذبوں کی طلبگار ہوتی ہے ❶ محبت اور ❷ عزت

سوچنے کی اصل بات!